کوہ سلیمان

کوہِ پیمائی اور کوہِ سلیمان
تحریر: عبدالغفار شیرانی

ہر آدمی کو سکون کی تلاش ہے، شہروں میں زندگی ہے مگر سکون نایاب. کہساروں میں سکون بے پناہ ہے مگر سہولیاتِ زندگی ندارد. انسانی شعور مشینوں کے شور سے راہِ فرار چاہتا ہے. مشینوں کے مصنوعی قید سے رہائی کی خواہش ہر آزاد فطرت انسان کی جبلت کا حصہ ہے. انسان رومانیت پسند ہے اور رومانیت کا تعلق فطرت سے ہے. فطرت صدیوں سے کہساروں کی چوٹیوں پر بانہیں پھیلائے آدمیت کی منتظر ہے. سبز رنگ زندگی کی علامت ہے اور زندگی کی یہ علامت پہاڑوں کے دامن میں جھولی پھیلائے انسانیت کا انتظار کر رہی ہے. کہسار خاکی زمین کے سینے پر عظمتِ سنگ کی بہت بڑی نشانیاں ہیں، یہ شاہکار نشانیاں قدرت تک رسائی میں سہولت کار ہیں. دیہاتی لوگ کہساروں میں رہتے ہیں اور شہری لوگ کہساروں کے خوابوں میں. ہر انسان فطری طور پر سربلندی چاہتا ہے اور سربلندی فطرت سے قربت میں ہے. قربتِ فطرت کی خاطر انسان ہزاروں فٹ بلندی پر جاکر کہساروں کو سر کرتا ہے. کوہ سلیمان پاکستان کا مشہور و معروف پہاڑی سلسلہ ہے جو بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب تک پھیلا ہوا ہے. پڑوس میں واقع ہونے کے باعث ضروری تھا کہ کوہ پیمائی کا آغاز جغرافیائی اہمیت کے حامل اس تاریخی کہسار سے ہو.

8 Likes

ہمارے خواب اور تختِ سلیمان
تحریر: عبدالغفار شیرانی

کوہ سلیمان کی سیاحت اور تختِ سلیمان تک رسائی ہمارا دیرینہ خواب تھا. اس خواب کو حقیقت کا روپ دینا ضروری تھا، جس کے لئے مقدس ارادوں کے نیک پرندوں کو شہر کی گرد آلود دیواروں سے بہت دور پرواز کرنا تھا. سفر حرکت کا استعارہ ہے اور حرکت میں برکت ہی برکت ہے. سفر کا فیصلہ ہوا تو فاصلے خود بخود کٹنے لگے. نیند کی قربانی کا ارادہ ہم نے کیا اور دن کا آرام خود ہی ہمارے لئے حرام ٹہرا. سفر ہو تو لازم ہے کہ ہم ذوق و ہم خیال کچھ ہم سفر بھی ہوں ورنہ سفر بوجھ بن جاتا ہے اور زادِ سفر بوجھل. اپنے دس احباب کے ہمراہ بارہ جولائی کی شام آٹھ بجے ژوب شہر سے سفر کا آغاز ہوا. دو گاڑیوں میں سوار دس ہمسفر تھے اور آخری منزل تھی تختِ سلیمان. منزل پر کوئی سمجھوتہ ممکن تھا نہ قافلے کے عزم میں کمی کا کوئی امکان تھا.

عشاء کی نماز سلیازئی میں ادا کی اور عشائیہ بھی یہیں تناول فرمایا. براستہ مانی خواہ رات گیارہ بجے احمدی درگہ پہنچے جو کوہِ سلیمان کے قریب ایک بڑا گاؤں ہے. مقامی میزبان جاگ کر ہمارا انتظار کر رہے تھے. صاحبِ اقبال مولوی فیض اللہ نے استقبال کیا. صبح سوا چار بجے نیند سے بیدار ہوئے، فجر باجماعت ادا کی اور دوبارہ سفر کا آغاز ہوا. قریبی گاؤں کریم کچھی جوکہ کوہِ سلیمان کے دامن میں آباد ہے تک گاڑیوں میں گئے. بعد ازاں پیدل سفر شروع ہوا. ایک خر جس اہلِ قافلہ نے فخرِ خراں کے خطاب سے نوازا پر سامان لادا گیا. ہم تھے بس اور ہمارے ہم زاد. اپنے ہم زادوں اور زادِ راہ کے ہمراہ ایک طویل، کھٹن اور نا آشنا راہ پر کامل یقین اور پختہ عزم کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا. کچھ احباب کی کاوش، کچھ ہماری کوشش اور کچھ تختِ سلیمان کی کشش، بس یہی تکون تھا کہ کوہ سلیمان جیسا بلند قامت پہاڑ دریائے ژوب کے کنارے سے اٹھنے والے قدموں تلے ایستادہ انسانی عظمت کی گواہی دے رہا تھا.

ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا

3 Likes

بلند و بالا تختِ سلیمان اور بلند تر عزائم
تحریر: عبدالغفار شیرانی

سورج کی کرنیں کوہ سلیمان کی چوٹیوں سے اتر رہی تھیں اور ہم کریم کچھی سے کوہ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے پر چڑھنے کا آغاز کر رہے تھے. صبح سات بجے کوہ پیمائی کا آغاز ہوا. ہلکی پھلکی گپ شپ، آرام کے مختصر مختصر وقفے، جگہ جگہ خوبصورت مناظر کی عکس بندی اور دوستوں کے طنز و مزاح سے سیاحت کی فرحت دوبالا ہو رہی تھی. کہیں دو منٹ بیٹھ کر پانی کے دو گھونٹ پی لئے تو کہیں چار پانچ منٹ بیٹھ کر پھلوں کے بادشاہ آم کو معدے کے تخت پر بٹھایا. کوہ پیمائی ہو اور چڑھائی اترائی نہ ہو محال ہے، اتنی چڑھائیاں چڑھے اور اُترائیاں اُترے کہ اپنی کوہ پیمائی پر اِترانے والے بھی اِترانا بھول گئے. ایک دو گھنٹے تک زمین پر بہتے چشموں نے ساتھ دیا مگر اس کے بعد چشموں میں پانی رہا نہ چراغوں میں روشنی. راستے میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ گیارہ آدمیوں کے پاس محض تین بوتل پانی رہ گیا. آٹھ گھنٹے کا فاصلے طے ہوچکا تھا اور چار گھنٹے مزید سفر اب بھی باقی تھا. مقامی رہبر بھی پانی کے ذخائر سے ناواقف نکلا. احباب کے چہروں پر مایوسی کے سائے منڈلانے لگے تو قدرت مہربان ہوئی، نیلگوں آسمان پر گہرے بادل نمودار ہوئے. دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوئی. احباب کے چہروں پر دوبارہ رونق لوٹ آئی. ایک بڑا پلاسٹک جو شہر سے ہم ساتھ لائے تھے، اس کو چاروں کونوں سے پکڑ کر بارش کا پانی بقدرِ ضرورت جمع کیا گیا اور دوبارہ سفر کا آغاز ہوا. اب موسم خوشگوار تھا اور ہمدم بھی تازہ دم. یہ ایک ایسا سفر تھا جو تمام شرکائے سفر کو آخر دم تک یاد رہے گا.

2 Likes

تختِ سلیمان اور سلیمانی دوست
تحریر: عبدالغفار شیرانی

کوہِ سلیمان نیلگوں آسماں کے نیچے دیوہیکل نیلے چٹانوں اور سدا بہار سرسبز درختوں کا مجموعہ ہے. تختِ سلیمان کے راستے میں قدم قدم پر زیتون و چلغوزے ایستادہ ہیں. چلغوزے کا پھل جب تک چھلکے میں بند ہو اُسے مقامی پشتو میں اوشکے کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے آنسو. چلغوزے کے یہ آنسو بڑے قیمتی ہوتے ہیں، ان کو درخت سے اتارنے کے لئے شدید محنت کرنی پڑتی ہے مگر حصول کے بعد ان کی قیمت کا مقابلہ یہاں کا کوئی پھل نہیں کرپاتا. زیتون دنیا بھر میں امن کا نشان سمجھا جاتا ہے اور چلغوزے کو یہاں کے مفلوک الحال اور غریب سال بھر کے خوشحال معیشت کی نوید گردانتے ہیں. زیتون اور چلغوزوں کے بیچ گام گام پر مخلتف النوع جڑی بوٹیاں سر اٹھائے کھڑی ہیں. لمبی لمبی گھاس جو گھنٹوں تک ہمارے گھٹنوں کو چھوتے رہے. کہیں گھاس تو کہیں جنگلی پھول، یوں لگتا تھا گویا زمین پر سبز قالین بچھے ہیں جن پر قدرتی بیل بوٹے نقش ہیں، اس سبزے کے بیچ سر اٹھائے پتھر کسی گاؤ تکیہ کی مانند بے پناہ فرحت کا احساس دلاتے ہیں. یہاں نایاب سمجھے جانے والے لاتعداد اقسام کی سدا بہار اشجار اور شاندار احجار کی بہتات ہے، نایاب ہے تو بس صرف پانی، جس کی ایک ایک بوند کو لوگ ترستے ہیں. پشتو زبان میں سیر و سیاحت کرنے والوں کو سیلانی کہا جاتا ہے. کوہ سیلمان کی طرف جانے والے کوہ پیماؤں کو مقامی قبائل کے لوگ سلیمانی کہتے ہیں جو سیلانی کا ہم وزن ہے اور ہم معنی بھی. کوہِ سلیمان کے یادگار سفر سے ہمارے ہم سفر سیلانی دوست بھی سلیمانی بن گئے.

5 Likes

قیس عبدالرشید اور قیسہ غر
تحریر: عبدالغفار شیرانی

قیس عبدالرشید کو تاریخی اعتبار سے پشتون قوم کا مورث اعلیٰ اور جد امجد سمجھا جاتا ہے. پشتون قوم کو بعض محقیقن قدیم آریا نسل گردانتے ہیں جبکہ بعض دیگر انہیں بنی اسرائیل میں سے ثابت کرتے ہیں. بنی اسرائیل قرار دینے والے بعض مورخین نے قیس عبدالرشید کو افغنہ بن ارمیا کی اولاد میں سے بتایا ہے، جن کو حضرت سلیمان کے دورِ حکومت کا وزیرِ دفاع اور طالوت کا پوتا قرار دیا جاتا ہے. انیسویں صدی سے قبل کے اکثر مورخین قیس عبدالرشید کو ایک حقیقی شخص اور پشتون قوم کا مورثِ اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں تاہم دورِ جدید کے بعض محققین نے ان کو محض ایک افسانوی شخصیت قرار دیا ہے.

قیس عبدالرشید کو بعض حضرات نے کچھ کمزور تاریخی روایات کی مدد سے تابعی بلکہ بعض مورخین نے تو صحابی ثابت کرنے کی بھی اپنی سی بھرپور کوشش کی ہے. ان حضرات کے مطابق قیس نے حضور پاک کے دست پر بیعت کرکے اسلام قبول کیا تھا، اور حضورِ اقدس نے ان کا عبرانی نام قیس تبدیل کرکے عربی نام عبدالرشید رکھ دیا تھا. ان حضرات کے بقول دربارِ رسالت سے قیس کو بطان کا خطاب بھی ملا تھا جس کا مطلب ہے کشتی کے بنیاد کا تختہ، یہ لوگ پٹھان کو اسی بطان کی تبدیل شدہ صوتی شکل قرار دیتے ہیں. بقول ان کے بطان زمانہ گزرنے کے ساتھ بَتان، بعد ازاں بتھان اور پھر پٹھان ہوگیا.

دینِ اسلام کے ساتھ پشتون کی من حیث القوم فطری محبت، جذباتی وابستگی اور شدید عقیدت اپنی جگہ، مگر درایتِ حدیث کے معیار اور سند کے اعتبار سے ان تمام اسرائیلی نما روایات کی کوئی اصل نہیں، قیس عبدالرشید کا حضور پاک سے بذاتِ خود، حضرت خالد بن ولید یا کسی دوسرے صحابی سے ملاقات کا کوئی تذکرہ احادیث کے کسی مجموعے میں موجود ہے نہ ہی تاریخ کے کسی معتبر کتاب میں، تمام ذخیرہ احادیث میں قیس کی حضورِ اقدس سے ملاقات کا صریح ذکر تو کجا مفہوم کے اعتبار سے بھی کوئی صحیح نہ سہی ضعیف روایت بھی موجود نہیں ہے.

تختِ سلیمان کی چوٹی سطحِ سمندر سے گیارہ ہزار چار سو چالیس فٹ یعنی تین ہزار چار سو ستاسی میٹر بلند ہے. اس بلند و بالا چوٹی پر ایک قدیم قبر موجود ہے. اس قبر کو اکثر مقامی لوگ اور بعض تاریخی شخصیات پشتون قبائل کے جد امجد سمجھے جانے والے قیس عبدالرشید کی قبر گردانتے ہیں. ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قیسہ غر دراصل پشتو زبان میں ”دہ قیس غر“ کی تبدیل شدہ صورت ہے یعنی قیس کا پہاڑ ہے. ان کے مطابق یہ پہاڑی علاقہ قیس عبدالرشید کا آبائی مسکن اور مدفن رہا ہے. شجرہ نسب کی کتابوں میں قیس عبدالرشید کے تین فرزندان سڑبن، بیٹ اور غورغشت کا تذکرہ ملتا ہے. سڑبن کی اولاد کو سڑبنی، بیٹ کے بیٹوں کو بیٹنی اور غورغشت کی نسل کو غورغشتی کہا جاتا ہے. باقی تمام پشتون قبائل انہیں تین کی اولاد میں سے ہیں.

7 Likes

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your trip with us, was this your first visit there? What did you enjoy the most?

You seem to be new on Connect so, please take some time to read the following article which will help you in

the Community: 14 helpful tips for using Connect.

You can always introduce yourself and get to know other Local Guides via our monthly topic

Introduce Yourself - November 2019.

1 Like

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your interesting trip with us. However, I am going to merge your post to the previous one, as the content is similar.

1 Like

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your trip with us, it looks that you spent some great time!

PS: i am going to merge this post to the previous one, as the content is similar and speaks about the same trip.

1 Like

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your trip with us. I am going to merge your post with the previous one as the content is similar.

It seems that you posted several posts related to the same trip. I suggest you, next time, to create one general post and upload all the photos inside.

1 Like

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your trip with us. However, I am going to merge it to the previous one, as the content is similar.

1 Like

7 Likes

Hello @Walikhan12 ,

Thank you for sharing your trip with us, it seems that you had some great time!

I am going to merge this post to the previous one as they are similar.